مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قارئین کے سوال

قارئین کے سوال

حِزقی‌ایل 37 باب میں دو چھڑیوں کا ذکر ہوا ہے جنہیں جوڑ کر ایک بنایا گیا۔‏ اِس کا کیا مطلب تھا؟‏

اِس پیش‌گوئی کے ذریعے یہوواہ خدا نے حِزقی‌ایل نبی کو بتایا کہ بنی‌اِسرائیل اپنی سرزمین کو لوٹیں گے اور متحد ہوں گے۔‏ یہ پیش‌گوئی اِس آخری زمانے میں خدا کے بندوں کے اِتحاد کی طرف بھی اِشارہ کرتی ہے۔‏

یہوواہ خدا نے حِزقی‌ایل نبی سے کہا کہ وہ دو چھڑیاں لیں اور ایک پر لکھیں:‏ ”‏یہوؔداہ .‏ .‏ .‏ کے لئے“‏ اور دوسری پر لکھیں:‏ ”‏اؔفرائیم کی چھڑی یوؔسف .‏ .‏ .‏ کے لئے۔‏“‏ پھر یہوواہ خدا نے کہا کہ یہ دو چھڑیاں حِزقی‌ایل کے ”‏ہاتھ میں ایک ہوں گی۔‏“‏—‏حِز 37:‏15-‏17‏۔‏

اِس پیش‌گوئی میں ”‏اؔفرائیم“‏ کس کی طرف اِشارہ کرتا ہے؟‏ دس قبیلوں پر مشتمل اِسرائیل کی سلطنت کے پہلے بادشاہ،‏ یربعام تھے جو کہ اِفرائیم کے قبیلے سے تھے۔‏ یہ قبیلہ اُن دس قبیلوں کا سب سے طاقت‌ور قبیلہ تھا۔‏ (‏اِست 33:‏13،‏ 17؛‏ 1-‏سلا 11:‏26‏)‏ اِس قبیلے کے لوگ یوسف کے بیٹے اِفرائیم کی نسل سے تھے۔‏ (‏گن 1:‏32،‏ 33‏)‏ یوسف کو اپنے باپ یعقوب سے خاص برکت ملی تھی۔‏ اِس لیے یہ مناسب تھا کہ اُس چھڑی کو جو دس قبیلوں پر مشتمل سلطنت کی طرف اِشارہ کرتی تھی،‏ ”‏اؔفرائیم کی چھڑی“‏ کہا گیا۔‏ حِزقی‌ایل نبی کے زمانے سے بہت عرصہ پہلے اسور کے بادشاہ نے اِس سلطنت کے لوگوں کو اسیر کر لیا تھا۔‏ یہ 740 قبل‌ازمسیح میں ہوا تھا۔‏ (‏2-‏سلا 17:‏6‏)‏ اِس کے بہت سال بعد بابل کے بادشاہ نے اسوریوں کے علا‌قے پر قبضہ کر لیا۔‏ لہٰذا حِزقی‌ایل کے زمانے میں اِسرائیل کی سلطنت کے زیادہ‌تر لوگ بابلی سلطنت کے مختلف علا‌قوں میں رہ رہے تھے۔‏

سن 607 قبل‌ازمسیح میں دو قبیلوں پر مشتمل یہوداہ کی سلطنت کے لوگوں کو شہر بابل میں اسیر کر لیا گیا۔‏ یہوداہ کی سلطنت کے تمام بادشاہ یہوداہ کے قبیلے سے تھے۔‏ کاہن بھی یہوداہ کے علا‌قے میں رہتے تھے کیونکہ وہ ہیکل میں خدمت کرتے تھے جو یروشلیم میں تھی۔‏ (‏2-‏توا 11:‏13،‏ 14؛‏ 34:‏30‏)‏ اِس وجہ سے یہ مناسب تھا کہ دو قبیلوں پر مشتمل سلطنت کی چھڑی پر ”‏یہوؔداہ .‏ .‏ .‏ کے لئے“‏ لکھا گیا۔‏

اِن دو چھڑیوں کو کب جوڑا گیا؟‏ یہ 537 قبل‌ازمسیح میں ہوا جب بنی‌اِسرائیل بابل سے یروشلیم لوٹ آئے اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے لگے۔‏ اُس وقت دونوں سلطنتوں کے افراد اسیری سے رِہا ہو گئے اور مل کر اپنے وطن کو لوٹ آئے۔‏ اب بنی‌اِسرائیل دو سلطنتوں میں نہیں بٹے تھے بلکہ متحد تھے۔‏ (‏حِز 37:‏21،‏ 22‏)‏ وہ مل کر یہوواہ خدا کی عبادت کرنے لگے۔‏ اِس بات کی پیش‌گوئی یسعیاہ اور یرمیاہ نبی نے بھی کی تھی۔‏—‏یسع 11:‏12،‏ 13؛‏ یرم 31:‏1،‏ 6،‏ 31‏۔‏

حِزقی‌ایل نبی کی اِس پیش‌گوئی سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے بندے ’‏ایک ہوں گے‘‏ اور اُس کی عبادت میں متحد ہوں گے۔‏ (‏حِز 37:‏18،‏ 19‏)‏ کیا یہ پیش‌گوئی ہمارے زمانے میں بھی پوری ہوئی؟‏ جی۔‏ یہ پیش‌گوئی 1919ء میں پوری ہونے لگی جب خدا کے بندوں کو دوبارہ سے منظم کِیا جانے لگا اور اُن کا اِتحاد بڑھ گیا۔‏ اُس وقت شیطان کو شکست ہوئی جو خدا کے بندوں میں پھوٹ ڈالنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔‏

اُس زمانے میں یہوواہ کے زیادہ‌تر بندے آسمان پر بادشاہوں اور  کاہنوں کے طور پر خدمت کرنے کی اُمید رکھتے تھے۔‏ (‏مکا 20:‏6‏)‏ یہ لوگ یہوداہ کی چھڑی کی طرح تھے۔‏ لیکن جوں‌جوں وقت گزرتا گیا،‏ بہت سے ایسے مسیحی اُن کا ساتھ دینے لگے جو زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے تھے۔‏ (‏زک 8:‏23‏)‏ یہ لوگ اِفرائیم کی چھڑی کی طرح تھے اور آسمان پر یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کرنے کی اُمید نہیں رکھتے تھے۔‏

یہ دو گروہ مل کر یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ وہ سب یسوع مسیح کو اپنا بادشاہ مانتے ہیں جنہیں حِزقی‌ایل کی پیش‌گوئی میں ”‏میرا بندہ داؔؤد“‏ کہا گیا۔‏ (‏حِز 37:‏24،‏ 25‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کے بارے میں دُعا کی کہ ”‏وہ سب ایک ہوں جس طرح تُو،‏ اَے باپ،‏ میرے ساتھ متحد ہے اور مَیں تیرے ساتھ متحد ہوں۔‏“‏ * (‏یوح 17:‏20،‏ 21‏)‏ یسوع مسیح نے یہ بھی کہا کہ مسح‌شُدہ مسیحیوں کا چھوٹا گلّہ اُن کی باقی بھیڑوں کے ساتھ ”‏ایک گلّہ“‏ بن جائے گا اور اُن سب کا ”‏ایک چرواہا ہوگا۔‏“‏ (‏یوح 10:‏16‏)‏ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔‏ آج خدا کے تمام بندے متحد ہیں،‏ چاہے وہ آسمان پر جانے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر رہنے کی۔‏

^ پیراگراف 10 یسوع مسیح نے اپنی موجودگی کی نشانی کے سلسلے میں جو مثالیں دیں،‏ اِن کی ترتیب پر غور کریں۔‏ سب سے پہلے اُنہوں نے ”‏وفادار اور سمجھ‌دار غلا‌م“‏ کا ذکر کِیا۔‏ یہ مسح‌شُدہ مسیحیوں کا وہ گروہ ہے جو یہوواہ کے بندوں کی پیشوائی کر رہا ہے۔‏ (‏متی 24:‏45-‏47‏)‏ اِس کے بعد یسوع مسیح نے کچھ ایسی مثالیں دیں جو صرف مسح‌شُدہ مسیحیوں پر لاگو ہوتی ہیں۔‏ (‏متی 25:‏1-‏30‏)‏ آخر میں اُنہوں نے اُن لوگوں کا ذکر کِیا جو زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں اور مسیح کے بھائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔‏ (‏متی 25:‏31-‏46‏)‏ حِزقی‌ایل نبی کی پیش‌گوئی میں بھی یہی ترتیب پائی جاتی ہے۔‏ اِس میں پہلے تو مسح‌شُدہ مسیحیوں کی طرف اِشارہ کِیا گیا ہے اور پھر اُن لوگوں کی طرف جو زمین پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ عموماً خدا کے کلام میں دس قبیلوں پر مشتمل سلطنت اُن لوگوں کی طرف اِشارہ نہیں کرتی جو زمین پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ لیکن حِزقی‌ایل  کی اِس پیش‌گوئی میں اُس اِتحاد کی واضح تصویر پیش کی گئی ہے جو مسح‌شُدہ مسیحیوں اور یسوع مسیح کی اَور بھی بھیڑوں میں پایا جاتا ہے۔‏