مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تاریخ کے ورقوں سے | افلاطون

افلاطون

افلاطون

افلاطون ایک یونانی فلاسفر تھے جو تقریباً ۴۲۷-‏۳۴۷ قبل‌ازمسیح کے عرصے میں رہتے تھے۔‏ وہ شہر ایتھنز میں پیدا ہوئے اور اُن کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔‏ اُنہوں نے بہت اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔‏ اُن کی سوچ پر مشہور فلاسفر سقراط اور ریاضی‌دان فیثاغورث کے نظریات کا بہت گہرا اثر تھا۔‏

افلاطون نے بحیرۂروم کے علاقوں کا سفر کِیا اور سسلی کے شہر سیراکیوز میں سیاست میں حصہ لیا۔‏ لیکن اِس کے بعد افلاطون ایتھنز واپس آ گئے۔‏ وہاں اُنہوں نے ایک سکول قائم کِیا جو دی اکیڈمی کے نام سے مشہور ہو گیا۔‏ اِس اکیڈمی کو یورپ کی سب سے پہلی یونیورسٹی بھی کہا جاتا ہے۔‏ اِس اکیڈمی میں ریاضی اور فلسفے کے موضوعات پر تحقیق کی جاتی تھی۔‏

یہ معلومات آپ کے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں؟‏

افلاطون کی تعلیمات نے دُنیابھر کے مذہبی عقیدوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔‏ مسیحی مذہب کے بھی بہت سے عقیدے افلاطون کے نظریات سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ زیادہ‌تر مسیحی اِس غلط‌فہمی کا شکار ہیں کہ یہ عقیدے بائبل پر مبنی ہیں۔‏ افلاطون کا جو نظریہ سب سے زیادہ پھیلا ہے،‏ وہ یہ ہے کہ انسان کے اندر روح ہوتی ہے اور جب انسان مر جاتا ہے تو یہ روح کسی اَور جہان میں زندہ رہتی ہے۔‏

‏”‏افلاطون کے سب سے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک یہ تھا کہ انسان کی روح کبھی نہیں مرتی۔‏“‏​—‏کتاب بدن اور روح کے بارے میں قدیم فلاسفی

افلاطون کو یہ جاننے میں بڑی دلچسپی تھی کہ جب انسان مر جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں کتاب بدن اور روح کے بارے میں قدیم فلاسفی ‏(‏انگریزی میں دستیاب)‏ میں لکھا ہے:‏ ”‏افلاطون کے سب سے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک یہ تھا کہ انسان کی روح کبھی نہیں مرتی۔‏“‏ وہ اِس بات پر پورا یقین رکھتے تھے کہ ”‏انسان کا بدن مر جاتا ہے لیکن اُس کی روح زندہ رہتی ہے اور پھر اُس کو اجر یا سزا ملتی ہے۔‏“‏ افلاطون کا کہنا تھا کہ اجر یا سزا اُن کاموں کے مطابق ملتی ہے جو انسان نے اپنی زندگی میں کئے ہوتے ہیں۔‏ *

افلاطون کی تعلیمات کا اثر

افلاطون کی اکیڈمی نو صدیوں تک چلی (‏یعنی ۳۸۷ قبل‌ازمسیح سے ۵۲۹ عیسوی تک)‏۔‏ اِس دوران افلاطون کی تعلیمات نے لوگوں کی سوچ پر بہت گہرا اثر ڈالا۔‏ افلاطون کے نظریات اُن علاقوں میں بہت مقبول ہوئے جو یونان اور روم کے زیرِاثر تھے۔‏ یہودی فلاسفر اسکندریہ کے فیلو نے افلاطون کی تعلیمات کو اپنا لیا اور مسیحی مذہب کے بہت سے رہنما بھی اُن کی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔‏ اِس کے نتیجے میں یہودیت اور مسیحیت میں بہت سے ایسے عقیدے شامل ہو گئے جن کی اصل جڑ یونانی فلسفے میں تھی۔‏ اِس کی ایک مثال یہ عقیدہ ہے کہ انسان کی روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔‏

ایک لغت میں لکھا ہے کہ ”‏یونانی فلسفہ کسی حد تک تمام مسیحی عالموں میں مقبول ہے۔‏ لیکن کچھ عالم تو ایسے ہیں جن کو افلاطون کے پیروکار کہا جا سکتا ہے۔‏“‏ ‏(‏دی اینکر بائبل ڈکشنری)‏ اِس سلسلے میں نیچے دئے گئے بیانات کا موازنہ کریں۔‏

افلاطون کی تعلیم:‏ ‏”‏جب انسان مر جاتا ہے تو اُس کے جسم سے روح نکل کر دیوتاؤں کے پاس چلی جاتی ہے جہاں اُسے اپنے اعمال کا حساب دینا پڑتا ہے۔‏ اگر اُس شخص نے اچھے کام کئے ہیں تو اُس کی روح بڑے اعتماد کے ساتھ حساب دینے جائے گی اور اگر اُس نے بُرے کام کئے ہیں تو اُس کی روح خوف سے کانپے گی۔‏“‏—‏افلاطون کی کتاب قوانین،‏ جِلد نمبر ۱۲۔‏

پاک کلام کی تعلیم:‏ موت ایک لحاظ سے نیند کی طرح ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ جب انسان مر جاتا ہے تو اُسے کسی بات کی خبر نہیں ہوتی۔‏ لیکن خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کر دے گا۔‏ ذرا اِن آیتوں پر غور کریں:‏

  • ”‏زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔‏“‏—‏واعظ ۹:‏۵‏۔‏

  • ”‏[‏انسان]‏ کا دم نکل جاتا ہے تو وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔‏ اُسی دن اُس کے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔‏“‏—‏زبور ۱۴۶:‏۴‏۔‏

  • ”‏وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔‏“‏—‏یوحنا ۵:‏۲۸‏۔‏

اِن آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک کلام میں یہ تعلیم نہیں پائی جاتی کہ مرنے کے بعد انسان کی روح کسی اَور جہان میں زندہ رہتی ہے۔‏ لہٰذا خود سے پوچھیں کہ ”‏کیا میرے عقیدے خدا کے کلام پر مبنی ہیں یا افلاطون کے فلسفے پر؟‏“‏

^ پیراگراف 7 اصل میں افلاطون اِس نظریے کے بانی نہیں تھے۔‏ یہ نظریہ بہت پُرانا تھا اور کئی بُت‌پرست مذہبوں میں پایا جاتا تھا جیسے کہ مصر اور بابل کے مذہبوں میں۔‏