مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اِنٹرویو | گیئرمو پیرس

ایک سرجن اپنے ایمان کے بارے میں بتاتے ہیں

ایک سرجن اپنے ایمان کے بارے میں بتاتے ہیں

ڈاکٹر گیئرمو پیرس حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں۔‏ وہ جنوبی افریقہ کے ایک ایسے ہسپتال میں سرجری کے شعبے کے اِنچارج تھے جہاں 700 مریضوں کی گنجائش ہے۔‏ بہت سالوں تک وہ اِرتقا کے نظریے پر ایمان رکھتے تھے۔‏ لیکن بعد میں وہ اِس بات پر قائل ہو گئے کہ اِنسانی جسم کو خدا نے بنایا ہے۔‏ جاگو!‏ کے ناشرین نے اُن سے اُن کے ایمان کے بارے میں کچھ سوال پوچھے۔‏

ہمیں بتائیں کہ آپ اِرتقا کے نظریے پر ایمان کیوں رکھتے تھے۔‏

میری پرورش ایک کیتھولک گھرانے میں ہوئی۔‏ لیکن مَیں خدا کے وجود پر شک کرتا تھا۔‏ مَیں ایک ایسے خدا پر ایمان نہیں رکھ سکتا تھا جو لوگوں کو دوزخ میں تڑپاتا ہے۔‏ اِس لیے جب یونیورسٹی میں میرے اُستادوں نے سکھایا کہ خدا نے جان‌دار چیزوں کو نہیں بنایا بلکہ یہ اِرتقا کے ذریعے وجود میں آئی ہیں تو مَیں نے اِس نظریے کو قبول کر لیا۔‏ مَیں نے سوچا کہ اِس نظریے کی حمایت میں ٹھوس ثبوت موجود ہوں گے۔‏ خیر،‏ میرے چرچ میں اِرتقا کے نظریے کو رد نہیں کِیا گیا بلکہ یہ سکھایا گیا کہ خدا نے اِرتقا کے ذریعے سب کچھ بنایا۔‏

تو پھر آپ بائبل میں دلچسپی کیسے لینے لگے؟‏

میری بیوی سوزینا نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کِیا۔‏ اُنہوں نے اُسے بائبل میں سے دِکھایا کہ خدا لوگوں کو دوزخ میں نہیں تڑپاتا۔‏ * اُنہوں نے اُسے یہ بھی دِکھایا کہ خدا نے ہماری زمین کو فردوس بنانے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ * یہ تعلیمات ہم دونوں کو بڑی معقول لگیں۔‏ سن 1989ء میں یہوواہ کا ایک گواہ جس کا نام نک تھا،‏ مجھ سے ملنے کے لیے آنے لگا۔‏ ایک دن جب ہم اِنسانی جسم اور اِس کی اِبتدا کے بارے میں بات کر رہے تھے تو مَیں نے بائبل میں عبرانیوں 3:‏4 کو پڑھا جس میں لکھا ہے:‏ ”‏ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے۔‏“‏ اِس آیت میں لکھی دلیل سے مَیں بہت متاثر ہوا۔‏

کیا آپ اِس لیے بھی خالق پر ایمان رکھنے کی طرف مائل ہوئے کہ آپ نے اِنسانی جسم پر  تحقیق کی ہے؟‏

جی جی۔‏ مَیں نے دیکھا کہ ہمارے جسم میں خودبخود ٹھیک ہونے کے نظام کو بہت شان‌دار طریقے سے بنایا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر زخم بھرنے کے عمل کو لے لیں۔‏ اِس عمل میں چار مرحلے ہوتے ہیں۔‏ اِن مرحلوں پر غور کرنے سے مَیں نے دیکھا کہ مَیں سرجن کے طور پر جسم کے علاج میں بہت چھوٹا سا کردار ادا کرتا ہوں جبکہ جسم میں ایک ایسا حیرت‌انگیز نظام ہے جو اِس کی مرمت میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔‏

اچھا،‏ ہمیں بتائیں کہ جب ہمارے جسم میں کوئی زخم ہوتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے؟‏

کچھ لمحوں میں ہی ایک سلسلہ‌وار عمل کا پہلا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں خون کو روکا جاتا ہے۔‏ یہ سارا عمل بہت پیچیدہ ہے لیکن اِس کی کارکردگی بےمثال ہے۔‏ ہمارے نظامِ‌دورانِ‌خون کو ہی دیکھ لیں۔‏ اِس میں ایک لاکھ کلومیٹر (‏60 ہزار میل)‏ لمبی خون کی نالیاں ہیں۔‏ لیکن جب اِن میں کوئی سوراخ ہوتا ہے اور خون رسنے لگتا ہے تو نظامِ‌دورانِ‌خون اِن نالیوں کی مرمت کر لیتا ہے۔‏ پلمبر تو اِس نظام پر ضرور رشک کرتے ہوں گے۔‏

مرمت کے دوسرے مرحلے میں کیاکیا ہوتا ہے؟‏

کچھ ہی گھنٹوں میں زخم کی جگہ سے خون بہنا بند ہو جاتا ہے اور وہاں سُوجن ہونے لگتی ہے۔‏ یہ عمل بہت حیرت‌انگیز ہوتا ہے۔‏ جب زخم لگتا ہے تو شروع میں خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں تاکہ زیادہ خون نہ بہے۔‏ لیکن دوسرے مرحلے کے دوران خون کی نالیاں پھیلنے لگتی ہیں تاکہ زخم کی جگہ پر خون کا بہاؤ بڑھے۔‏ اِس کے بعد زخم کی ساری جگہ سُوج جاتی ہے۔‏ یہ ایک ایسے سیال کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں کافی مقدار میں پروٹین پائی جاتی ہے۔‏ یہ سیال بہت اہم ہے کیونکہ یہ اِنفیکشن کے خلاف لڑتا ہے،‏ زہر کے اثر کو کم کرتا ہے اور اُن بافتوں کو ہٹاتا ہے جن کو نقصان پہنچا ہے۔‏ اِس مرحلے میں جو عمل ہوتے ہیں،‏ اُن کے لیے لاکھوں خاص قسم کے مالیکیولوں اور خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اِن میں سے کچھ عمل اگلے مرحلے کو بھی شروع کرتے ہیں اور پھر ختم ہو جاتے ہیں۔‏

تو اگلے مرحلے میں کیا ہوتا ہے؟‏

کچھ ہی دنوں میں ہمارے جسم میں ایسے مادے پیدا ہونے لگتے ہیں جو مرمت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔‏ یوں تیسرا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے اور دو ہفتے کے بعد یہ اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔‏ جن خلیوں سے ریشے بنتے ہیں،‏ وہ زخم کی جگہ پر آ جاتے ہیں اور تقسیم ہونے لگتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ خون کی چھوٹی‌چھوٹی نالیاں پھوٹتی ہیں اور زخم کی جگہ کی طرف بڑھنے لگتی ہیں۔‏ یہ نالیاں مرمت کے دوران فاضل مادوں کو ہٹاتی ہیں اور اِضافی غذائی اجزا فراہم کرتی ہیں۔‏ اِس مرحلے میں اَور بھی پیچیدہ عمل ہوتے ہیں جن کے دوران خاص قسم کے خلیے پیدا ہوتے ہیں جو زخم کے سروں کو جوڑتے ہیں۔‏

اچھا،‏ ہمارے جسم میں اِتنا کچھ ہوتا ہے!‏ لیکن زخم کو پوری طرح ٹھیک ہونے میں کتنا وقت لگتا  ہے؟‏

آخری مرحلہ بحالی کا ہوتا ہے اور اِس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔‏ اگر کوئی ہڈی ٹوٹی ہو تو اِس دوران وہ اپنی اصلی حالت میں آ جاتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ جو ریشے شروع میں زخم کے اُوپر آتے ہیں،‏ اُن کی جگہ ایک مضبوط تہہ آ جاتی ہے۔‏ جس طرح سے زخم بھرتا ہے اُسے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ جسم کے نظام کتنی اچھی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔‏

کیا آپ کو کوئی ایسا واقعہ یاد ہے جس سے آپ خاص طور پر متاثر ہوئے؟‏

جب مَیں دیکھتا ہوں کہ جسم خود اپنی مرمت کیسے کر لیتا ہے تو مَیں دنگ رہ جاتا ہوں۔‏

جی،‏ مجھے یاد ہے کہ مَیں نے ایک 16 سال کی لڑکی کا علاج کِیا تھا۔‏ وہ ایک حادثے میں زخمی ہو گئی تھی اور اُس کی حالت بہت نازک تھی۔‏ اُس کی تلی پھٹ گئی تھی اور جسم میں اندر ہی اندر خون بہہ رہا تھا۔‏ اگر کچھ سال پہلے ہمارے پاس کوئی ایسا کیس آتا تو ہم اُس کا آپریشن کرکے اُس کی تلی ٹھیک کر دیتے یا پھر نکال دیتے۔‏ لیکن آج‌کل ڈاکٹر جسم کو خود اپنی مرمت کرنے کا موقع دیتے ہیں۔‏ اِس لیے مَیں نے بس اُس لڑکی کے اِنفیکشن،‏ خون کی کمی اور درد کا علاج کِیا اور اُن سیال مادوں کی بحالی کا بندوبست کِیا جو اُس کے جسم سے ضائع ہو گئے تھے۔‏ کچھ ہفتے بعد ایک سکین سے ظاہر ہوا کہ اُس کی تلی ٹھیک ہو چکی ہے۔‏ جب مَیں دیکھتا ہوں کہ جسم خود اپنی مرمت کیسے کر لیتا ہے تو مَیں دنگ رہ جاتا ہوں۔‏ اِس سے میرا یقین اَور پکا ہو جاتا ہے کہ ہمیں خدا نے بنایا ہے۔‏

آپ کو یہوواہ کے گواہوں کی کون‌سی بات  اچھی لگی؟‏

مَیں نے دیکھا کہ وہ بہت خوش‌اخلاق ہیں۔‏ اُنہوں نے ہمیشہ میرے سوالوں کے جواب بائبل میں سے دیے۔‏ مجھے یہ بات بھی بہت اچھی لگی کہ وہ اپنے عقیدوں کے بارے میں دلیری سے بتاتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے بارے میں سکھاتے ہیں۔‏

کیا یہوواہ کا گواہ بننا آپ کے کام کے حوالے سے فائدہ‌مند ثابت ہوا؟‏

جی‌ہاں۔‏ جب ڈاکٹر اور نرسیں مسلسل ایسے مریضوں کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں جو بہت بیمار یا زخمی ہوتے ہیں تو اکثر وہ جذباتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ کا گواہ ہونے کی وجہ سے مَیں اِس دباؤ سے نپٹ سکا۔‏ اِس کے علاوہ جب مریض اپنی پریشانی کے بارے میں مجھ سے بات کرتے تھے تو مَیں اُنہیں بتاتا تھا کہ ہمارے خالق نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ بیماری اور تکلیف کو ختم کرے گا * اور ایک ایسی دُنیا لائے گا جس میں  کوئی بھی شخص نہیں کہے گا کہ ”‏مَیں بیمار ہوں۔‏“‏ *

^ پیراگراف 7 2.‏ یسعیاہ 11:‏6-‏9‏۔‏

^ پیراگراف 23 4.‏ یسعیاہ 33:‏24‏۔‏