سرِورق کا موضوع | زندگی کیسے وجود میں آئی؟
دو اہم سوال
1 زندگی کی اِبتدا کیسے ہوئی؟
بعض لوگ کہتے ہیں: زندگی بےجان مادے کے ذریعے خودبخود وجود میں آئی۔
کچھ لوگ کیوں اِس جواب سے مطمئن نہیں ہوتے؟ آجکل سائنسدان خلیوں اور اِن کی ساخت کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ بےجان مادے میں زندگی کیسے آئی۔ ایک خلیہ چاہے کتنا ہی سادہ کیوں نہ ہو، اِس میں اور بےجان مادے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
سائنسدان اِس بات کا بس اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ اربوں سال پہلے زمین پر حالات کیسے تھے۔ وہ زندگی کی اِبتدا کے بارے میں فرق فرق نظریات رکھتے ہیں۔ مثال کے طور بعض سائنسدان سوچتے ہیں کہ زندگی کا آغاز آتشفشاں پہاڑ کے اندر ہوا تھا جبکہ دیگر کا ماننا ہے کہ اِس کا آغاز سمندر کی تہ میں ہوا تھا۔ کچھ کا ماننا ہے کہ وہ سارے اجزا جن سے اِبتدائی خلیہ بنا، وہ کائنات میں کسی جگہ موجود تھے اور پھر یہ ایک ٹوٹتے تارے کے ذریعے زمین پر پہنچے۔ لیکن اِس وضاحت سے اِس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ زندگی کی اِبتدا کیسے ہوئی۔ اِس میں تو بس یہ دعویٰ کِیا گیا ہے کہ زندگی کا آغاز کہیں اَور ہوا تھا۔
جانداروں کے خلیوں کے اندر ڈیایناے ہوتا ہے جن میں اُن کے تمام اعضا کی بناوٹ کے بارے میں معلومات موجود ہوتی ہے۔ لیکن ڈیایناے کیسے وجود میں آیا؟ سائنسدان مانتے ہیں کہ اِس بات کا اِمکان بہت کم ہے کہ ڈیایناے بےجان مادے سے خودبخود وجود میں آیا۔ اِس لیے بعض سائنسدان یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ڈیایناے کے وجود میں آنے سے پہلے ایسے مالیکیول موجود تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیایناے بن گئے۔ اُن کے خیال میں یہ ایسے مالیکیول تھے جو آسانی سے خودبخود وجود میں آ سکتے تھے۔ لیکن اب تک نہ تو سائنسدان یہ ثبوت دے سکے ہیں کہ ایسے مالیکیول کبھی موجود تھے اور نہ ہی وہ لیبارٹری میں کوئی ایسا مالیکیول بنا سکے ہیں۔
ہر جاندار میں جینیاتی معلومات کو محفوظ کرنے اور اِسے اِستعمال کرنے کی حیرتانگیز صلاحیت ہے۔ ہر خلیہ اپنے ڈیایناے کی معلومات کو سمجھ سکتا اور اِس کے مطابق کام کر سکتا ہے۔ بعض سائنسدان ڈیایناے کو کمپیوٹر کے سافٹ وئیر سے اور خلیے کی کیمیائی ساخت کو کمپیوٹر کے ہارڈ وئیر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ لیکن اِرتقا کے نظریے کو ماننے والوں کے پاس اِس سوال کا جواب نہیں کہ ڈیایناے میں موجود معلومات کہاں سے آئیں۔
ایک خلیے کے اندر پروٹین مالیکیولز مختلف کام انجام دیتے ہیں۔ ایک پروٹین مالیکیول سینکڑوں امینو ایسڈ سے بنتا ہے جو ایک خاص ترتیب سے آپس میں لپٹے ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ پروٹین مالیکیول کو صحیح طرح سے کام کرنے کے لیے ایک خاص شکل اِختیار کرنی پڑتی ہے۔ اِس بِنا پر بعض سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کِیا ہے کہ اِس بات کا اِمکان بہت ہی کم ہے کہ ایک پروٹین مالیکیول خودبخود وجود میں آیا ہو۔ سائنسدان پال ڈیویس نے لکھا: ”چونکہ ایک خلیہ ہزاروں مختلف پروٹین سے بنتا ہے اِس لیے یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ یہ پروٹین خودبخود وجود میں آئے ہیں۔“
نتیجہ: سائنسدان کافی سالوں تک تحقیق کرنے کے بعد بھی اِس حقیقت سے مُنہ نہیں پھیر سکتے کہ ایک زندہ شے بےجان مادے سے نہیں بلکہ صرف دوسری زندہ شے سے ہی وجود میں آتی ہے۔
2 جانداروں کی مختلف اقسام کیسے وجود میں آئیں؟
بعض لوگ کہتے ہیں: پہلی جاندار شے آہستہ آہستہ مختلف قسم کے جانداروں میں تبدیل ہوتی گئی، جن میں اِنسان بھی شامل ہیں۔ یہ تبدیلیاں ڈیایناے کے اِتفاقاً بدلنے اور فطری اِنتخاب کے ذریعے ہوئیں۔
کچھ لوگ کیوں اِس جواب سے مطمئن نہیں ہوتے؟
بعض خلیے دوسرے خلیوں کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ سادہ خلیے پیچیدہ خلیوں میں کیسے تبدیل ہو سکتے تھے؟ ایک کتاب کے مطابق ”اِرتقا کے نظریے کے سلسلے میں یہ دوسرا بڑا راز ہے جبکہ پہلا بڑا راز زندگی کی اِبتدا ہے۔“
سائنسدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ ہر خلیے میں موجود پروٹین مالیکیولز مل کر ایک مشین کی طرح پیچیدہ کام انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ خلیے کے اندر خوراک کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے اور اِسے توانائی میں تبدیل کرتے ہیں؛ یہ خلیے کی مرمت کرتے اور اِس کے مختلف حصوں میں معلومات پہنچاتے ہیں۔ کیا ایسا پیچیدہ نظام اِتفاقیہ تبدیلیوں یا فطری اِنتخاب کے ذریعے وجود میں آ سکتا تھا؟ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ بات ناممکن ہے۔
اِنسانوں اور جانوروں کی زندگی کا آغاز ماں کے رحم میں ایک بارور انڈے کے ذریعے ہوتا ہے۔ پھر یہ انڈا تقسیم ہوتا ہے اور اِس سے مختلف خلیے بنتے ہیں۔ اِن خلیوں کی بناوٹ اور کام فرق فرق ہوتا ہے۔ یوں اِن سے جسم کے مختلف اعضا بنتے ہیں۔ اِرتقا کے نظریے کے حمایتی یہ نہیں بتا سکتے کہ ایک خلیہ بھلا کیسے جانتا ہے کہ وہ کون سا کام کرے گا اور جسم کے کس حصے میں ہوگا۔
سائنسدان اب سمجھ گئے ہیں کہ جانداروں کے اِرتقا کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے خلیوں کی بناوٹ میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ لیکن سائنسدان اب تک یہ ظاہر نہیں کر سکے کہ ایک سادہ سا خلیہ اِرتقا کے ذریعے کیسے وجود میں آیا ہے۔ لہٰذا ذرا سوچیں، کیا زمین پر موجود مختلف جانوروں اور پودوں کی اقسام سب کی سب اِتفاقیہ تبدیلیوں یا فطری اِنتخاب کے ذریعے وجود میں آ سکتی تھیں؟ بیالوجی کے پروفیسر مائیکل بہے بتاتے ہیں کہ جانوروں کی ساخت پر تحقیق کرنے سے پتہ چلا ہے کہ ”یہ ہماری توقع سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور ابھی تک ہم اِس بات کو نہیں سمجھ پائے کہ جانوروں میں پائے جانے والے پیچیدہ نظام خودبخود کیسے وجود میں آئے۔“
اِنسانوں میں تمیز کرنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ وہ فراخدلی اور محبت جیسی خوبیاں ظاہر کر سکتے ہیں اور صحیح اور غلط میں فرق کر سکتے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اِنسانوں میں یہ خوبیاں اور صلاحیتیں اِتفاقیہ تبدیلیوں اور فطری اِنتخاب کے ذریعے آئی ہوں؟
نتیجہ: زیادہتر لوگ اِرتقا کے نظریے کو اٹل حقیقت مانتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اِرتقا کے نظریے سے اِن سوالوں کا اِطمینانبخش جواب نہیں ملتا کہ زندگی کی اِبتدا کیسے ہوئی اور جانداروں کی مختلف اقسام کیسے وجود میں آئیں؟