کیا خدا کو افسوس ہوتا ہے؟
خدا کے نزدیک جائیں
کیا خدا کو افسوس ہوتا ہے؟
قضاۃ ۲:۱۱-۱۸
ہم گنہگار انسان ہیں۔ اِس لئے جب بھی ہم سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو ہمیں بڑا افسوس ہوتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہوواہ خدا کو بھی افسوس ہوتا ہے۔ شاید آپ سوچیں کہ ’خدا بدی اور گُناہ سے بالکل پاک ہے۔ وہ کوئی غلطی نہیں کرتا۔‘ توپھر اُسے کیوں افسوس ہوتا ہے؟ اِس سوال کا جواب ہمیں خدا کے بارے میں ایک بہت ہی حیرتانگیز بات سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یہوواہ خدا مختلف احساسات رکھتا ہے اور ہمارے اعمال اُس کے احساسات پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ آئیں اِس سلسلے میں قضاۃ ۲:۱۱-۱۸ میں درج بیان پر غور کریں۔
بائبل کی کتاب قضاۃ اسرائیلی تاریخ کے نہایت بُرے دَور کا ذکر کرتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیلی قوم کنعان میں اچھی طرح آبادی ہو چکی تھی۔ یہوواہ خدا نے ابرہام کو یہی ملک دینے کا وعدہ کِیا تھا۔ اگلی کئی صدیوں کے دوران اسرائیلی قوم کی تاریخ میں چار دَور آئے: گمراہی کا دَور، مصیبت کا دَور، پشیمانی کا دَور اور رِہائی کا دَور۔ *
گمراہی کا دَور۔ کنعانیوں کے کہنے میں آکر اسرائیلیوں نے یہوواہ خدا کو ”چھوڑ دیا“ اور دوسرے معبودوں خاص طور پر ”بعلؔ اور عستاؔرات کی پرستش کرنے لگے۔“ * وہ یہوواہ سے برگشتہ ہو گئے۔ یوں اسرائیلیوں نے ”[یہوواہ] کو غصہ دلایا“ جو اُنہیں مصر سے نکال کر لایا تھا۔—۱۱-۱۳ آیات؛ قضاۃ ۲:۱۔
مصیبت کا دَور۔ اسرائیلیوں کی گمراہی سے یہوواہ کا غصے میں آنا بالکل بجا تھا۔ اسرائیلی جب بھی یہوواہ خدا سے مُنہ پھیرتے وہ اُن کی حفاظت کرنا چھوڑ دیتا تھا۔ اِس کے نتیجے میں وہ اپنے ”دشمنوں کے ہاتھ“ سے مصیبت اُٹھاتے جو اُنہی کے علاقے میں گھس کر اُن کا سب کچھ لُوٹ لیتے تھے۔—۱۴ آیت۔
پشیمانی کا دَور۔ جب اسرائیلیوں کو مصیبت سے بچنے کی کوئی راہ دکھائی نہ دیتی تو اُنہیں اپنے کئے پر بہت افسوس ہوتا اور پھر وہ مدد کے لئے خدا کو پکارتے۔ وہ ’اپنے ستانے والوں کے باعث کڑھتے تھے۔‘ یہ اصطلاح ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنی غلطی پر پشیمان ہوتے تھے۔ (۱۸ آیت) اِس لئے وہ باربار یہوواہ خدا سے فریاد کرتے تھے۔ (قضاۃ ۳:۹، ۱۵؛ ۴:۳؛ ۶:۶، ۷؛ ۱۰:۱۰) کیا یہوواہ خدا اُن کی فریاد سنتا تھا؟
رِہائی کا دَور۔ یہوواہ خدا اُن کا کڑھنا سُن کر ”ملول“ ہوتا یعنی افسوس کرتا تھا۔ جس عبرانی لفظ کا ترجمہ یہاں ”ملول“ کِیا گیا ہے وہ ”ارادہ یا سوچ بدل لینے“ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ اسرائیلیوں کے ”کڑھنے سے متاثر ہو کر یہوواہ خدا نے اُنہیں سزا دینے کا ارادہ ترک کرکے اُنہیں چھڑانے کا بندوبست کِیا۔“ اسرائیلیوں پر ترس کھا کر یہوواہ ”قاضیوں کو برپا کرتا“ جو اُس کے لوگوں کو اُن کے دشمنوں سے بچاتے تھے۔—۱۸ آیت۔
پس ہم نے یہ سیکھ لیا کہ یہوواہ خدا کے ملول ہونے یا افسوس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حالات کے پیشِنظر اپنا ارادہ یا سوچ بدل لیتا ہے۔ لیکن ذرا غور کریں کہ اسرائیلیوں کے معاملے میں اُس نے اپنا ارادہ کیوں بدلا؟ کیونکہ اُنہوں نے اپنے طورطریقے بدل لئے تھے۔ اِس بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک باپ اپنے بچے کو اُس کی کسی غلطی پر سزا دیتا ہے۔ وہ شاید اُس پر کچھ پابندیاں لگا دیتا ہے۔ لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ بچے کو اپنی غلطی پر افسوس ہے تو وہ اُس کی سزا ختم کر دیتا ہے۔ اِسی طرح اسرائیلیوں کا کڑھنا سُن کر یہوواہ اُنہیں سزا دینے کا ارادہ بدل لیتا تھا۔
اِس پورے بیان سے ہم یہوواہ خدا کے متعلق کیا سیکھتے ہیں؟ ہمارے لئے اِس میں سبق یہ ہے کہ اگر ہم جانبوجھ کر گُناہ کرتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا کو غصہ دلاتے ہیں۔ لیکن جب ہم دل سے توبہ کر لیتے ہیں تو وہ ہم پر رحم کرتا ہے۔ پس یہ کتنی سنجیدہ بات ہے کہ ہمارے اعمال کا یہوواہ خدا کے احساسات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اِس لئے آئیں یہوواہ کا ’دل شاد‘ کرنے کی پوری کوشش کریں۔ (امثال ۲۷:۱۱) ایسا کرنے سے ہمیں کبھی کوئی افسوس نہیں ہوگا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 قضاۃ ۲:۱۱-۱۸ میں اسرائیلیوں کے طورطریقوں کا خلاصہ پیش کِیا گیا ہے جبکہ باقی ابواب میں اِس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
^ پیراگراف 6 بعل کنعانیوں کا سب سے بڑا دیوتا تھا اور عستارات دیوی کو اُس کی بیوی خیال کِیا جاتا تھا۔