مواد فوراً دِکھائیں

دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کا قتلِ‌عام کیوں ہوا؟ خدا نے اِسے کیوں نہیں روکا؟‏

دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کا قتلِ‌عام کیوں ہوا؟ خدا نے اِسے کیوں نہیں روکا؟‏

 بہت سے لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں، اُنہیں خود بھی اُس وقت بڑی تکلیف اُٹھانی پڑی۔ یہ لوگ نہ صرف اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنے دُکھ سے تسلی بھی پانا چاہتے ہیں۔ دیگر لوگوں کی نظر میں تو یہودیوں کا قتلِ‌عام اِنسانیت کا خون تھا اور اِس وجہ سے اُن کا خدا سے بھروسا اُٹھ گیا۔‏

خدا اور دوسری عالمی جنگ میں ہونے والے یہودیوں کے قتلِ‌عام کے بارے میں کچھ غلط‌فہمیاں

غلط‌فہمی:‏ خدا سے یہ سوال کرنا سراسر غلط ہے کہ اُس نے یہودیوں کا قتلِ‌عام کیوں ہونے دیا۔‏

 حقیقت:‏ جو لوگ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے، اُنہوں نے اکثر یہ سوال اُٹھایا کہ خدا بُرائی کو کیوں نہیں روکتا۔ مثال کے طور پر خدا کے نبی حبقوق نے خدا سے پوچھا:‏ ”‏تُو کیا مجھے نااِنصافی دِکھاتا ہے؟ تُو بدکاری کو کیوں برداشت کر لیتا ہے؟ بربادی اور ظلم میرے سامنے ہیں۔“‏ (‏حبقوق 1:‏3‏، نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ خدا نے حبقوق کو اِن سوالوں پر ڈانٹنے کی بجائے اِن سوالوں کو اپنے کلام میں لکھوا لیا تاکہ ہم سب اِنہیں پڑھیں۔

غلط‌فہمی:‏ خدا کو اِنسانوں پر آنے والی مصیبتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔‏

 حقیقت:‏ خدا کو بُرائی سے سخت نفرت ہے اور اُسے یہ دیکھ کر بہت بُرا لگتا ہے کہ اِس کی وجہ سے لوگوں کو اِتنی تکلیفیں سہنی پڑتی ہیں۔ (‏امثال 6:‏16-‏19‏)‏ نوح کے زمانے میں جب خدا نے دیکھا کہ زمین پر بُرائی کتنی زیادہ بڑھ گئی ہے تو اُس نے ”‏دل میں غم کِیا۔“‏ (‏پیدایش 6:‏5، 6‏)‏ بے‌شک خدا کو یہودیوں کا قتلِ‌عام دیکھ کر بھی بہت دُکھ ہوا ہوگا۔—‏ملاکی 3:‏6‏۔‏

غلط‌فہمی:‏ یہودیوں کا قتلِ‌عام اِس لیے ہوا کیونکہ خدا اُنہیں سزا دینا چاہتا تھا۔‏

 حقیقت:‏ یہ سچ ہے کہ خدا نے پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کو یروشلیم تباہ کرنے دیا۔ (‏متی 23:‏37–‏24:‏2‏)‏ لیکن اُس کے بعد سے وہ نہ تو کسی ایک قوم کو دوسری قوم سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی اُنہیں سزا دیتا ہے۔ خدا کی نظر میں ”‏یہودی اور یونانی میں کوئی فرق نہیں۔“‏—‏رومیوں 10:‏12‏۔‏

غلط‌فہمی:‏ اگر واقعی کوئی محبت کرنے اور بے‌پناہ طاقت رکھنے والا خدا ہوتا تو وہ اِس قتلِ‌عام کو ضرور روک دیتا۔‏

 حقیقت:‏ حالانکہ خدا کبھی بھی لوگوں پر مصیبتیں نہیں لاتا لیکن کبھی کبھار وہ وقتی طور پر اِنہیں آنے دیتا ہے۔—‏یعقوب 1:‏13؛‏ 5:‏11‏۔‏

خدا نے دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کا قتلِ‌عام کیوں ہونے دیا؟‏

 یہودیوں کا قتلِ‌عام نہ روکنے کے پیچھے بھی وہی وجہ ہے جو اِنسانوں پر آنے والی مصیبتیں نہ روکنے کے پیچھے ہے۔ خدا اُن اِعتراضات کا جواب دینا چاہتا ہے جو صدیوں پہلے اُٹھائے گئے۔ بائبل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ فی‌الحال شیطان اِس دُنیا کا حاکم ہے نہ کہ خدا۔ (‏لُوقا 4:‏1، 2،‏ 6؛‏ یوحنا 12:‏31‏)‏ آئیں، پاک کلام سے دو ایسی باتوں پر غور کریں جن سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ خدا نے دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کے قتلِ‌عام کو کیوں نہیں روکا۔‏

  1.   خدا نے اِنسانوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔‏ خدا نے سب سے پہلے اِنسانی جوڑے آدم اور حوا کو بتایا کہ وہ اُن سے کس بات کی توقع کرتا ہے۔ لیکن اُس نے اُنہیں اُس کا حکم ماننے پر مجبور نہیں کِیا۔ آدم اور حوا کو یہ فیصلہ کرنے کی آزادی تھی کہ وہ اچھا کریں گے یا بُرا۔ اُنہوں نے اپنے لیے بُرا فیصلہ کِیا اور اُس کے بعد سے اِنسانی تاریخ میں اَور لوگوں نے بھی بُرے فیصلے کیے جن کی وجہ سے اِنسانوں کو کافی نقصان اُٹھانا پڑا۔ (‏پیدایش 2:‏17؛‏ 3:‏6؛‏ رومیوں 5:‏12‏)‏ ایسی ہی بات یہودیوں کے بارے میں ایک کتاب میں کہی گئی ہے جہاں لکھا ہے:‏ ”‏دُنیا میں آنے والی زیادہ‌تر مصیبتوں کے ذمے‌دار ہم ہی ہیں کیونکہ ہم نے اپنی آزادی کا غلط اِستعمال کِیا ہے۔“‏ خدا نے اِنسانوں سے اُن کی آزادی لے لینے کی بجائے اُنہیں وقت دیا کہ وہ اُس کی رہنمائی کے بغیر اپنے معاملوں کو حل کرنے کی کوشش کر لیں۔‏

  2.   یہودیوں کے قتلِ‌عام سے جو نقصان ہوا، خدا اُس سب کو نہ صرف ٹھیک کرنے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ وہ ایسا کرے گا بھی۔‏ خدا نے لاکھوں مُردوں کو زندہ کرنے کا وعدہ کِیا ہے جن میں وہ یہودی بھی شامل ہوں گے جن کا قتلِ‌عام ہوا۔ خدا اُس دُکھ کو بھی دُور کر دے گا جو اِس قتلِ‌عام سے بچنے والے لوگوں کو اُس بھیانک وقت کو یاد کر کے ہوتا ہے۔ (‏یسعیاہ 65:‏17؛‏ اعمال 24:‏15‏)‏ خدا اِنسانوں کے لیے جو محبت رکھتا ہے، وہ اِس بات کی ضمانت ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرے گا۔—‏یوحنا 3:‏16‏۔‏

 دوسری عالمی جنگ میں ہونے والے قتلِ‌عام سے متاثرہ لوگ یہ سمجھ گئے کہ خدا نے اِس بُرائی کو کیوں نہیں روکا۔ وہ یہ بھی جان گئے کہ خدا نے اُس تکلیف کو دُور کرنے کے لیے کیا کچھ سوچ رکھا ہے جو اِس بھیانک واقعے کی وجہ سے اُنہیں پہنچی۔ اِس بات سے اُن کا ایمان مضبوط رہا اور اُنہیں زندگی کا مقصد ملا۔‏